اٹلی: نظام کا بحران نئے مرحلے میں داخل Share Tweetدوسری عالمی جنگ کے بعد اٹلی میں اس وقت شدید ترین معاشی، سیاسی اور سماجی بحران میں ڈوبا ہوا ہے اور جیو سیپے کونتے کی حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماریو در اغی نامی شخص نجات دہندہ بن کر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس بورژوا ٹیکنوکریٹ کے پاس اطالوی محنت کشوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںسال 2020ء میں اطالوی معیشت میں 8.8 فیصد کمی ہوئی۔ بینک آف اٹلی نے پیشین گوئی کی کہ 2020ء کے معاشی انہدام کی وجہ سے کاروباروں کے دیوالیہ پن میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ پانچ لاکھ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں (سرکاری اعدادوشمار) جبکہ جبری برطرفیوں پر حکومتی پابندی ابھی بھی لاگو ہے۔ جب یہ پابندی ختم ہو جائے گی تو ہر چار میں سے ایک اطالوی کی نوکری خطرے میں ہو گی۔ اور اس معاشی تباہی کے علاوہ کورونا وباء (جس کے اختتام کا دور دور تک فی الحال کوئی امکان نہیں) اب تک 90 ہزار جانیں لے چکی ہے۔اس تاریخ ساز بحران کا وہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی جو کئی مہینوں سے ان بورژوا سیاست دانوں کی ”نیک نیتی“ پر دن گزار رہی ہے اور جو ہر وقت اپنی خدمات کے حوالے سے بہتر خریدار کی تلاش میں رہتے ہیں۔پچھلی انتہائی دائیں بازو لیگا اور ”اسٹیبلشمنٹ مخالف“ فائیو سٹار موومنٹ (Five Star Movement) کی مخلوط حکومت کے بعد بننے والی پہلی اور اب دوسری کونتے حکومت کے بعد بورژوا ڈیموکریٹک پارٹی (DP) اور فری اینڈ ایکوَل پارٹی (LEU) نے فائیو سٹار موومنٹ کے ساتھ ایک اتحاد بنا لیا جس کے بعد موجودہ پارلیمنٹ میں ایک سیاسی اکثریت حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔کونتے کی مجوزہ بحالی پلان پیش کرنے کی گھڑی تیزی سے قریب آ رہی تھی جس میں تفصیل موجود تھی کہ یورپی یونین کی جانب سے دیے گئے بعد از وباء بحالی فنڈ کی گرانٹس اور سبسڈیوں میں سے مختص کردہ اپنے حصے کو اٹلی کیسے خرچ کرے گا۔ اٹلی کو اس فنڈ کا سب سے بڑا حصہ 209 بلین یورو ملنا ہے۔مارچ 2018ء اور موسمِ سرماء 2019ء کی طرح جمہوریہ کے صدر سرجیو ماتاریلا کو اس گتھی کو سلجھانے کے لئے میدان میں اترنا پڑا۔اٹلی جیسی پارلیمانی جمہوریہ میں دہائیوں سے صدارتی منسب رسمی رہا ہے۔ لیکن اطالوی سیاسی نظام کے بحران میں 1990ء کی دہائی سے صدر کا کردار متحارب سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک ثالث کے طور پر ممتاز ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ماتاریلا کا حتمی فیصلہ حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے۔ایک دو ٹوک الفاظ میں کی گئی تقریر میں اس نے پارٹیوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے اصولوں کو ایک طرف رکھیں کیونکہ انہیں کسی ”سیاسی فارمولے کے ساتھ شناخت“ کی ضرورت نہیں اور انہیں محض ایک ایسا فرد چننا ہے جو موجودہ صورتحال میں ایک قومی مخلوط حکومت کو فعال رکھ سکے۔۔یورپی سنٹرل بینک کا سابق صدر ماریو دراغی۔دراغی کا کردار غیر جانبدارانہ ہر گز نہیں ہے۔ وہ صورتحال میں حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے مداخلت کر رہا ہے۔۔مالکان کی تنظیم (کونفین دوستریا) نے حکمتِ عملی میں تبدیلی کا مطالبہ کیا، یورپی یونین اپنا بندہ پالازو چیگی (وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ) میں دیکھ کر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے اور سٹاک مارکیٹیں اس تقرری پر بہت خوش ہیں اور جرمن اور اطالوی بانڈز کے درمیان فرق بے مثال سطح تک نیچے آ چکا ہے۔”سپر ماریو“ماریو دراغی کی تقرری کے بعد سے ہی اطالوی عوام پر ایک کمپئین مسلط کر دی گئی ہے جس میں ماریو دراغی کو ”سپر ماریو“۔۔ ایک حقیقی ”نجات دہندہ“ بنا کے پیش کیا جا رہا ہے۔ شائد وہ دن دور نہیں جب ہمیں یہ بھی بتایا جائے گا کہ دراغی مٹی کو سونا بنا دیتا ہے!ذرائع ابلاغ میں ایک مسلسل بیانیہ بنایا جا رہا ہے جس سے ان کی طبقاتی نفرت بھی عیاں ہو رہی ہے۔ بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے کہ اس وقت ”ٹیکنوکریٹ حکومت“ یا ”بہترین اور روشن اذہان کی حکومت“ درکار ہے یعنی جو سب سے گراں قدر اور خصوصی سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور جن کی قسمت میں لوحِ محفوظ پر پہلے ہی عوام پر حکمرانی کرنا لکھ دیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کا اجتماعی پاگل پن ظاہر کر رہا ہے کہ بحران کتنا شدید اور خوفناک ہے اور وہ ایک نئی امید کی کرن تلاش کرنے میں کتنے بدحواس ہو چکے ہیں۔حکمران طبقے کے اس دیو ہیکل دباؤ کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے تمام پارٹیاں اس پلان کی حمایت میں حمد و ثناء کرنا شروع ہو گئیں۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جنہیں مستقبل قریب میں کسی انتخابات میں فتح کی کوئی امید نظر نہیں آتی جیسے فورزا اطالیا اور سابق وزیرِ اعظم ماتیو رینزی کی نئی اعتدال پسند سنٹر پارٹی اطالیاویوا۔ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو ایک مرتبہ پھر ”قوم کی بہتری“ کے لئے قربانی دے رہی ہیں جیسے ڈیموکریٹک پارٹی۔ فائیو سٹار موومنٹ ایک مرتبہ پھر سر نِگوں ہے تاکہ اپنے ”ذمہ دار“ ہونے کا ثبوت دیا جائے جس کی قیمت اسے پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کو کھونے کی صورت میں چکانی پڑے گی اور پارٹی کی ساکھ مسلسل مجروح ہوتی چلی جائے گی (اگرچہ اس وقت پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے اوپر ہے)۔لیکن اصل پارٹی لیگا ہے جو فیصلہ کن لمحات میں حکمران طبقے کی مرضی کو مسلط کرنے کا کام کرتی ہے۔ ”شمال“ کے سرمایہ داروں (اٹلی کا بڑا صنعتی علاقہ) کی دراغی کے حوالے سے گرم جوشی نے لیگا کے قائد ماتیو سالوینی کو پھنسا دیا ہے۔ مالکان کی کنفیڈریشن کے صدر کارارو نے وضاحت کی ہے کہ ”تمام سیاسی قوتوں کو دراغی کی حمایت کرنی چاہیئے کیونکہ ان کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے“۔ پچھلے چند سالوں سے لیگا کی طرف سے لگایا جانے والا مرکزی نعرہ ”خود مختاری“ اس لئے پسِ پردہ ڈالا جا رہا ہے کیونکہ اب اسے ممکنہ طور پر بحالی پروگرام منظم کرنا پڑ رہا ہے۔صرف فراتیلی دی اطالیا (Brothers of Italy فاشسٹ Movimento Sociale Italiano, MSI کے وارث) دراغی کو ووٹ نہیں دے گی لیکن حکومت کو اکثریت حاصل کرنے کے لئے ان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ صرف ایک ہی گروہ پارلیمنٹ میں PD کے بائیں جانب کھڑا ہے۔۔LEU۔۔لیکن وہ بھی دوسری کونتے حکومت کا حصہ تھے اور تمام اشاریوں کے مطابق وہ بھی سر تسلیم خم کریں گے۔دراغی کا پروگرام کیا ہو گا؟ECB کے سابق صدر نے پچھلے سال مارچ میں فنانشل ٹائمز میگزین میں لکھے گئے ایک مشہور مضمون میں اور اس سال کئی تقریروں میں اپنے پروگرام کے خدوخال وضع کئے ہیں۔ دراغی مکمل طور پر متفق ہے کہ قومی قرضہ بڑھنا چاہیئے۔ اس کا ماننا ہے کہ نجی قرضوں کو ریاستی اخراجات میں شامل کیا جائے اور اس قرضے کو ”مفید“ بنایا جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”اس بحران میں تمام کمپنیوں کو ریاستی حمایت نہیں ملنی چاہیئے“ بلکہ ریاست کو ”بڑے سماجی خسارے“ سے بچنے کیلئے مداخلت کرنی چاہئیے، اور ظاہر ہے کہ بینک اور نجی سرمایہ کار ”جو زیادہ مہارت رکھتے ہیں“ ہی فیصلہ کریں گے کہ کن کمپنیوں میں ریاست نے سرمایہ کاری کرنی ہے۔لیکن دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ”نیم مردہ“ کمپنیوں کے محنت کشوں کا مستقبل کیا ہے؟ ”مراعات کے نتیجے میں انہیں نئی نوکریاں پیدا کرنی چاہئیں نہ کہ صرف پرانی کو بچایا جائے“۔ یہ تو ان کے لئے بڑا حوصلہ افزاء ہے جو سمجھ رہے ہیں کہ حکومت محنت کشوں کے حق میں اس وقت مداخلت کرے گی جب 31 مارچ کو جبری برطرفیوں پر پابندی ہٹ جائے گی!اس لئے معیشت میں ریاستی مداخلت مکمل طور پر حکمران طبقے کے مفادات میں ہو گی۔ ریاست اپنے اخراجات کے ذریعے کاروباروں کی مسابقت بہتر کرنا چاہتی ہے۔ سٹرکچرل اصلاحات کا مطلب ہے کہ فلاحی اخراجات میں کٹوتیاں کی جائیں گی اور معاہدوں اور کام کے حالات کو لچک دار بنایا جائے گا۔ جو بے روزگار ہیں انہیں عارضی سبسڈی ملے گی لیکن دوبارہ روزگار ملنا محال ہے یا کم از کم روزگار کا شدید عدم تحفظ ہو گا۔ریٹائرمنٹ کی عمر پر دراغی نے ہمیشہ محنت کشوں کے روزگار زندگی کی طوالت میں اضافے کی حمایت کی ہے۔ لہٰذا ”100 کوٹہ“ (پہلی کونتے حکومت کی ایک پنشن اصلاح، جس کے مطابق ایک شخص ریٹائر ہو سکتا ہے اگر اس کی سالوں میں عمر اور جتنے سال سوشل سیکورٹی کے واجبات ادا ہوئے ہیں ان کا کل 100 بنتا ہے) میں بھی ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی جن کے نتیجے میں کم پنشن دی جائے۔لیکن لیبر تحریک کے قائدین میں دراغی حکومت کے حوالے سے خوش فہمیاں موجود ہیں کہ یہ محنت کشوں کے لئے ایک مثبت سنگِ میل ثابت ہو گی۔ CGIL ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ماؤریزو لاندینی کے مطابق دراغی ”کنٹریکٹ اور عارضی ملازمتوں کو ختم کر کے مستقل روزگار لائے گا“ کیونکہ وہ ”ماہر اور مقتدر“ ہے۔ یہ انتہائی خطرناک خوش فہمیاں ہیں۔ ایک غلام دو آقاؤں کا وفادار نہیں ہو سکتا۔غیر جانبدار اور ”ماہر“ ہونے کے سراب کے پیچھے قومی اتحاد کی حکومتیں ہمیشہ محنت کشوں کے مفادات پر حملے کرتی ہیں چاہے وہ 1990ء کی دہائی میں چامپی اور اماتو ہوں یا پھر دس سال پہلے مونتی ہو۔ آج بورژوازی کو ماضی کی جبری کفایت شعاری سے مختلف پالیسیوں کی ضرورت ہے لیکن حکومتی پالیسیاں ہمیشہ ان کی خدمات پر معمور ہونی چاہئیں۔قومی اتحاد ایک سراب ہے جس کا جنم وباء کے دوران خوفناک عدم مساوات کے نتیجے میں پچھلے 12 ماہ میں ہوا ہے اور بورژوازی کو موافق پالیسی سے اس کا تدارک نہیں کیا جا سکتا۔دراغی حکومت کا جنم ہر اس سیاسی پارٹی میں اندرونی تضادات اور اور ٹوٹ پھوٹ کو جنم دے گا جو اس کی حامی ہے۔ دائیں بازو، اعتدال پسند سنٹر اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں اس تجربے سے گزر کر زیادہ کمزور اور مجروح ہوں گی۔اس حکومتی بحران میں ہمارے طبقاتی مفادات۔۔محنت کشوں کے مفادات۔۔کی کوئی نمائندگی نہیں۔ اس وجہ سے ذرائع ابلاغ کی جانب سے پھیلایا جانے والا پروپیگنڈہ اور بھی زیادہ موثر ہے۔ اس سراب کو ختم کرنے کے لئے طبقاتی جدوجہد میں تحرک اور محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تحریک کا منظر عام پر آنا انتہائی ضروری ہے۔ہماری طرح ان تمام افراد کو جو تمام بورژوا حکومتوں (نئی اور پرانی) کے غیر متزلزل مخالف ہیں، اپنی شرائط پر سماجی جنگ کو منظم کرنا پرے گا۔ سرمایہ ادارانہ بحران جس کی تمام تر قیمت محنت کش ادا رکر رہے ہیں، سے نکلنے کا واحد راستہ طبقاتی جدوجہد ہی ہے۔