ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی Share Tweetہائیرونوموس بوش ہر دور کے لحاظ سے ممتاز ترین اور ایک حقیقی مصور تھا۔ اس کے فن پارے پانچ سو سال قبل تخلیق کیے گئے تھے لیکن آج بھی حیران کن طور پر جدید سرئیلزم کا شاہکار لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پریشان حال دنیا کا آرٹ ہے جو کہ متضاد رجحانات ]کی کھینچا تانی[ کے باعث نُچی پھٹی پڑی ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سے عقل کا چراغ گُل کر دیا گیا ہے اور جہاں درندگی کی خونخوار جبلتیں بازی جیت چکی ہیں۔ ایک دہشت، تشدد اور وباؤں سے بھری دنیا، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک بھیانک سپنا۔ مختصراً۔۔۔ایک ایسی دنیا جو کہ بالکل ہماری آج کی دنیا جیسی ہے، خاص طور پر موجودہ وباء کے جیسی۔ ایلن ووڈزؔ نے ہائیرونوموس بوشؔ کا تاریخی مادی نکتہ نظر سے جائزہ لیا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 23 دسمبر 2010ء کو شائع ہو ا تھا۔[Source]جس ہائیرونوموس بوش کو آج ہم جانتے ہیں اس کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا یہ نام بھی، جو کہ اس کے قلمی نام کے بطور اس کے فن پاروں پر رقم ہے۔ اس کا اصلی نام”یرون انطونی سون فان ایکن“ تھا، اور وہ 1450 عیسوی کے آس پاس جرمن سرحد کے قریب ہالینڈ کے ایک متمول تجارتی قصبے ’ایس سیتوغن بوش‘ میں پیدا ہواتھا۔ یہ 25000 نفوس کی آبادی پر مشتمل ایک امیر قصبہ تھا۔ کپڑا بنانے کی صنعت یہاں کی اہم صنعت تھی۔ لیکن آلاتِ موسیقی اور گھنٹیاں بنانے والے، پرنٹنگ والے، چاقو چھریاں، کیل اورپنیں بنانے والے اور ہتھیار ساز بھی اس کی وجہ شہرت تھے۔ اس کی تقریباً نوے فی صد آبادی کاشت کاری سے منسلک تھی۔بوش جس دور میں رہتا رہا ہے یہ وہی دور ہے جس کو ہُوئی زِنگاؔ نے”قرونِ وسطیٰ کے انحطاط“ کے نام سے پکارا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عظیم ثقافتی بیداری کی ابتدا ہو رہی تھی جس کو ہم نشاۃِ ثانیہ کہتے ہیں۔ منطقی تشکیکیت کے اس ماحول میں تحقیق اور سائنسی دریافتوں نے پھولنا پھلنا شروع کیا تھا۔ ظاہری عبادات، مذہبی جلوسوں، مقاماتِ مقدسہ کی زیارات، اور نیکو کاری کی سطح کے نیچے لوگ مسلسل تشکیک پسند ہو رہے تھے اوران میں کلیسا کے اور”خدا کی مرتب کردہ دنیا“ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے بڑے پیمانے پر عوام کو علم سے بہرہ ور کرنا ممکن بنا دیا تھا۔یہ تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم موڑ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جاگیر داری کی بنیادیں سرمایہ داری کے ہاتھوں کھوکھلی ہو رہی تھیں، جیسا کہ مارکس و اینگلز نے وضاحت کی ہے:”عہد وسطیٰ کے زرعی غلاموں سے ابتدائی شہروں کے حقوق یافتہ شہری پیدا ہوئے تھے۔ ان ہی شہروں سے بورژوا طبقے کے ابتدائی عناصر کی نشوونما ہوئی۔امریکہ کی دریافت اور افریقہ کے گرد جہاز رانی شروع ہونے کی وجہ سے ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے لئے راہیں کھل گئیں۔ ایسٹ انڈیا اور چین کی منڈیوں، امریکہ کی نو آباد کاری، نوآباد یوں کے ساتھ تجارت،ذرائع تبادلہ اور عام طور سے اجناس کی کثرت نے تجارت، جہاز رانی اور صنعت کو ایسی ترغیب دی جو کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے گرتے ہوئے جاگیردار ی سماج میں انقلابی عناصر کو تیزی سے بڑھنے کاموقع ملا۔صنعت کا جاگیر دارانہ نظام، جس میں صنعتی پیدا وار کاریگروں کی شراکت میں بنائی کارگاہوں کی اجارہ داریوں میں ہوا کرتی تھی، اب نئی منڈیوں کی بڑھتی ہوئی مانگوں کے لئے ناکافی ہو گیا۔ کارخانہ دار نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ استاد کو درمیانی کارخانہ دار پرت نے نکال باہر کیا۔ ہر کارخانے کی اندرونی تقسیم محنت کے مقابلے میں اہل حرفہ کی مختلف شراکتی جماعتوں کی باہمی تقسیم محنت ختم ہو گئی“۔ (کمیونسٹ مینی فیسٹو، بورژوا اور پرولتاریہ)’سیتوغن بوش‘ کی خوش حالی سرمایہ دارانہ طریق کے متعارف ہونے کی بدولت تھی۔ عہدِ وسطیٰ میں حرفت پر مبنی تمام تجارت گلڈز ]کاریگروں کا مل کر ایک جگہ تقسیم کار کرتے ہوئے شراکت داری میں کام کرنا[ کے ذریعے کی جاتی تھی۔ لیکن اب آجروں نے پیداوار کے نئے طریقے متعارف کروا دیے تھے۔ ان میں سے وہ لوگ جو کامیاب ہو جاتے تھے ان کی نسبت زیادہ منافع کماتے جو کہ دستکاری کے پرانے طریقوں پر کاربند تھے۔ ہالینڈ کی حکمران اشرافیہ نے بورژوازی کے لیے خود کو متحد کیا اور اس نئے سرمایہ داری کے طبع پیداوار ]mode of production[ کے منافعے میں سے اپنا حصہ بٹورنے لگے۔ لیکن گلڈز اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرنے لگے جو کہ ان کے لیے موت کا پیغام تھی۔ مفادات کی اس جنگ میں بات خانہ جنگی تک جا پہنچی تھی۔بوش کو جب بیسویں صدی میں کہیں جا کے دریافت کیا گیا تب تک وہ گمنامی کی تین صدیاں جھیل چکا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ اس سے پچھلی نسلیں اس عجیب و غریب آرٹ کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ یہ ایک ایسی پریشان حال دنیا کا آرٹ ہے جو کہ متضاد رجحانات ]کی کھینچا تانی[ کے باعث نُچی پھٹی پڑی ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سے عقل کا چراغ گُل کر دیا گیا ہے اور جہاں درندگی کی خونخوار جبلتیں بازی جیت چکی ہیں۔ ایک دہشت، تشدد اور وباؤں سے بھری دنیا، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک بھیانک سپنا۔ مختصراً۔۔۔ایک ایسی دنیا جو کہ بالکل ہماری آج کی دنیا جیسی ہے۔ایک عبوری دَورباوجود اس کے کہ بوش کے کام اور آج کی دنیا میں پانچ سو سال کا فاصلہ ہے مگر پھر بھی یہ ہمیں بہت سے ہم عصر آرٹ سے زیادہ حقیقت سے رُوشناس کراتا ہے۔ جس دنیا میں ہم آج جی رہے ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ متعلقہ ہے۔ اس آرٹ میں ایک عجیب طرح کا دل فریب حسن تو موجود ہے، لیکن جو چیز اس میں عنقا ہے وہ ہے منطق۔ اس میں انسانی تعقل کی ہر قدم پر چنوتی سے مُڈھ بھیڑ ہے۔ یہاں حقیقت سر کے بل کھڑی ہے۔ ہمیں محیرالعقل شبیہوں کا سامنا ہوتا ہے، روز مرہ کی دنیا کو دیکھنے کے ہمارے عام رویے سے عدم مطابقت کی بنا پر ہمارا سر چکرانا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں ہیگل کا بیان پوری طاقت سے ہم سے آن ٹکراتا ہے کہ: تعقل عدم تعقل بن جاتا ہے۔انوکھا پن اس آرٹ کا اصلی جوہر ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا کا عکس ہے جس کی سا لمیت ٹوٹ چکی ہے، جس کے روم روم سے شکستگی عیاں ہے۔ دھرتی جو ہمارے قدموں کے نیچے ہے، کھوکھلی ہو چکی ہے۔ جو کچھ کبھی سخت تھا سیال حالت اختیار کر چکا ہے اور جو سیال تھا سخت ہو کر اکڑ چکا ہے۔ پہاڑ جو کہ اس دنیاوی لذات کے باغ کے وسط میں ایستادہ ہے مہیب دیو قامت پودوں کی جون میں بدل چکا ہے جو کہ غیر فطرتی پکاؤ کے عمل سے پھوٹ کر جگہ جگہ سے کھلا پڑا ہے۔ ہر شے خود کے الٹ میں تبدیل ہو رہی ہے، یا پھر اگر ہراقلیطس کے الفاظ میں کہیں تو: ”ہر شے ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ ہر شے مسلسل بہاؤ میں ہے“۔اسلوبیاتی نکتہ نظر سے بوشؔ کا کام نہ تو عہدِ وسطیٰ کے آرٹ سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی یہ نشاۃِ ثانیہ کے آرٹ سے۔ باوجود اس کے کہ ان دونوں کے عناصر اس میں موجود ہیں پھر بھی بوش کا کام حیران کُن حد تک جدید نظر آتا ہے۔ یہ مبہوت کر نے والی، بلکہ جھنجھوڑ کے رکھ دینے والی شبیہیں ہیں، ان کا آپسی تعلق انتہا کی حد تک تضادات سے پُر اور اس قدر غیر متوقع ہے کہ شاید ہی کسی کو سُریئلزم کی نگری میں بھی ڈھونڈے سے اس سے ملتی جُلتی کوئی نظیر ملے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈراؤنے خواب جیسی ان شبیہوں کی ہیبت ناکی ڈالیؔ کے”ٹارچرڈ ٹارسوز“ اور”لِمپ واچز“ سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔دکھنے میں بظاہر نراجی ]انتشار پسند یا انارکسٹ[ اور غیر منطقی لگنے والا یہ آرٹ حقیقت میں اُس دنیا کی ایک انتہائی سچی تصویر پیش کرتا ہے جس میں بوش زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ایک عبوری دور کا آرٹ ہے؛ وہ دور جس میں جاگیر داری کا زوال اور سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بڑے بڑے واقعات اور تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ جاگیر داری کی حکمرانی ایک ناقابلِ واپسی گراوٹ کا شکار تھی اور سرمایہ داری شہروں میں پرانے نظام کو للکارتی ہوئی اپنے حقوق کی مانگ کر رہی تھی۔کوئی بھی سماجی اقتصادی نظام جب ترقی کی جانب گامزن ہو تو عمومی فضا میں ایک اعتماد اور امید کا رویہ پایا جاتا ہے۔ موجود نظام پر کوئی سوال ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے نظریات یا اخلاقی قدروں پر۔ لیکن یہاں تو عہدِ وسطیٰ کی کہن زدہ دنیا اپنی تمام تر مذہبی اعتقادات کی بنیادوں کی ہمراہی میں ڈھے رہی تھی۔ ایک ہی ساعت میں ہر شے کٹھالی میں پگھلانے کو ڈال دی گئی تھی۔ ہزار سال پرانا سلطنتِ روما کے زوال کے بعد کا مذہبی عقائد پر قائم حکمران نظام بری طرح سے لڑکھڑا رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب تشکیک اور نفسا نفسی کے بادل سارے کے سارے سماج پر چھائے ہوئے تھے۔ عمومی سماجی تبدیلی نے آفاقی تشکیک ]ہر چیز پر شک کرنے[ میں اپنے اظہار کی راہ پا لی تھی۔یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کہ پاگل ہو چکی ہے، ایسی دنیا جو کہ مرض الموت میں مبتلا ہے اور جس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں مل رہا۔ بوشؔ کی دنیاوی لذات کے باغ کی عظیم سہ لوحی تخلیق ] اس کے تین حصے ہیں، دائیاں، بائیاں اور درمیانہ [ کے چھوٹی چھوٹی تفاصیل لیے درمیانے حصے کی ہر جانب پھیلی ہوئی تھیم ]theme[ مختصراً کراہیت آمیز پکاؤ کا ایک اظہار ہے۔ دیو قامت مچھلیاں یقینی طور پر لِنگ کی علامت ہی ہیں۔ گناہ (جس کو زیادہ تر جنس کے ساتھ ہی منسلک کر کے دیکھا اور سوچا جاتا ہے) کا اظہار ایک عظیم الجثہ اور پُر گوشت پھل سے کیا گیا ہے، جن میں سٹرابیریاں نمایاں ہیں۔ ان کا غیر معمولی طور پر پَکنا ان کا اندرونی گلاؤ اور سڑاہٹ ہے، جو کہ اصل کراہیت آمیزی اور نفرت کا احساس دلاتا ہے۔پندرھویں صدی کے اختتام نے سو سالہ جنگ کی آخری خونریز جھڑپوں اور تُرکوں کی پہلی یورشوں کا مشاہدہ کیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ بوشؔ کی تصاویر میں ترکوں کا ہلال مستقلاً بار بار سامنے آنے والی شبیہ کے طور پر پایا جاتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کی زندگیاں مستقل طور پر انجانے تشدد اور موت کے خطرے کی زد میں تھیں۔ سیاہ موت ]یورپ میں طاعون کی وباء کا نام رکھا گیا تھا[ کروڑہا انسان نگل گئی تھی، اس طرح ہر جانب جنگوں کا اور معاشرتی بے چینی کا دور دورہ تھا۔ سماجی ٹوٹ پھوٹ کا عمل، چوری، ڈاکے اور عمومی لاقانونیت کی وباء کی صورت اختیار کر چکا تھا۔”سیتوغن بوش“ جیسے شہروں میں سولیاں، اذیت رسانی کے آلات اور زندان خانے کثرت سے ہوتے ہوں گے۔ اس دور میں یہ معمول کی بات تھی کہ کسی کو بھی بغیر کسی وجہ کے، کسی بھی وقت تشدد جھیلناپڑ جائے، موت ہمہ وقت ہر کسی کے قرب و جوار میں تھی۔ اس کی زہر خند شکل ہر کلیسا میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اور ان پینٹنگز کے پس منظر میں موت ہر وقت پھنکارتی موجود رہتی ہے۔ جو کہ عام طور پر ایک استخوانی ڈھانچے کی شکل میں ہوتی۔ بعینہ یہی موضوع بوشؔ کے واحد حقیقی وارث پیٹر بریوگلؔ نے پکڑا، جو کہ اس کی تصویر ”موت کا جشن“ میں موجود ہے۔جاگیر دارانہ سماج کی ٹوٹ پھوٹ نے، جو اپنے ساتھ ہر طرح کی برائیاں (جنگیں، بھک مری، وبائیں) لے کر آئی تھی، بے مایہ اسفل طبقہ جنما تھا جس میں، بے زمین دہقان، بیسوائیں، فُقرے، پھیری باز، شعبدہ باز، برخاست شدہ فوجی، اور زمینی قزاق تھے جو کہ چند سکوں کے لیے گلے کاٹ دیا کرتے تھے۔ جرمنی میں تو خود بہت سے جاگیر دار شرفا نے ”ڈاکو نواب“ کا پیشہ اختیار کر لیا تھا جو کہ کسانوں کو لوٹا مارا کرتے تھے۔”کالی موت“ یا طاعون، جس نے چودھویں صدی میں یورپ میں موت کا بازار گرم کیا، نے کم از کم ایک تہائی آبادی کا صفایا کر دیا تھا۔ اور اس کا پیچھا کرتے قحط بھی آن پہنچے جنہوں نے اپنے حصے کی صفائی کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ ایک اندھی اندھیری، افراتفری اور چھینا جھپٹی سے بھری پُری دنیا پیچھے بچ گئی تھی۔ لوگوں کا اس بات پر کامل ایمان تھا کہ بیماریاں اور وبائیں عذاب ہیں اور ”کالی موت“ خدا تعالیٰ کے غصے اور برہمی کا ایک واضح نشان ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے ذہن کو، جو کہ مذہبی دنیا کی روحانیت، بھوتوں اور تواہم کے شکنجے میں بری طرح سے جکڑا ہوا تھا، یہ لگ رہا تھا کہ بس روزِ حشر آن پہنچا ہے۔ ان دنوں عام جنتا اس ایک بات پر ایمان کر بیٹھی تھی کہ سن 1500 عیسوی شروع ہوتے ہی قیامت آ جائے گی۔ وہ سب بس جہنم کے کنارے کھڑے ہیں، اور نسلِ انسانی کے فرار کا اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔دنیا کا خاتمہ؟یہ بات تو بالکل واضح تھی کہ پرانی دنیا پوری رفتار سے ایک لاعلاج بوسیدگی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ مردوں اور عورتوں میں متضاد رجحانات نے پھاڑ پیدا کر دی تھی۔ ان کے عقائد پر کاری ضرب لگ چکی تھی اور وہ ایک سرد، غیر انسانی، دشمن اور ناقابلِ فہم دنیا میں بے کس و بے سہارا کاٹ کے رکھ دیے گئے تھے۔ ایک مخصوص سماجی اقتصادی نظام کو ناقابلِ اصلاح زوال کا سامنا ہونے پر ہر تاریخی دور میں یہ احساس نمایاں نظر آتا ہے کہ بس دنیا اپنے انجام کو جا پہنچی ہے۔پیٹر ایس بیگلؔ نے لکھا ہے:”جب بوشؔ پیدا ہوا تو پورے نظام کا تانا بانا بکھرنا شروع ہو چکا تھا۔ جاگیر داری کی وحشت ناک بقا ایک عمومی عقیدے کی نیو پر کھڑی تھی کہ تمام دنیا کا نظام اوپر آسمانوں سے چلتا ہے۔ خداوند جو کہ باپ ہے، سب سے بڑا تعلقے دار ہے، یہ تمام دنیا اس کی جاگیر ہے، وہ اپنے ان عظیم خزانوں سے جاگیریں اور طاقت و اختیار نکال نکال کر مذہبی راہنماؤں، راجاؤں، بادشاہوں اور جاگیر داروں کو بھیجتا رہتا ہے، جو اس کو آگے کرائے بھاڑے پر دے دیتے ہیں۔۔۔“ (پیٹر بیگلؔ، ارضی خواہشات کا باغ، صفحہ نمبر 14)اب ایک دم سے صدیوں سے بنے اس عقیدے پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی نے دنیا کے پہیے کی پِن نکال چھوڑی ہے۔ دہشت ناک غیریقینیت اور اضطراب نتیجے کی صورت میں درپیش تھی۔ پندرھویں صدی کے وسط سے ہی اعتقادات کا پرانا سلسلہ بکھرنا شروع ہو گیا تھا۔ لوگ اپنی نجات، آسائش اور سکون کی خاطر اب کلیسا سے رجوع نہیں کرتے تھے۔ اس کے برعکس مذہبی نزاع بہت سی مختلف شکلوں میں نمودار ہوا اور سماجی و سیاسی مخالفت کے بہروپ میں خود کو پیش کیا۔ویسے تو بوش کی دنیا اور ہماری آج کی دنیا میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان بہت بڑی خلیج بھی موجود ہے۔ آج، کم از کم مغرب میں مذہب آخری دموں پر کھڑا ہے۔ لیکن قرونِ وسطیٰ کے آخر میں مذہب انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے سیاست اور طبقاتی جدوجہد کا اپنا اظہار مذہبی علامات میں کرنا عین فطرتی تھا۔ سوادِ اعظم کے لیے واحد شے جو ان کی زندگی کو کسی حد تک قابلِ برداشت بناتی تھی، بس ایک اگلی زندگی کی امید تھی۔مقدس مادر کلیسا کو دکھی غریبوں کا سہارا مانا جاتا تھا اور اس کو اشکوں سے بھری اس دنیا سے پرے ایک بہتر زندگی کی امید کے طور پر باور کیا جاتا تھا۔ لیکن یہاں تو یہ بھی شکستہ اور کھوکھلی ہو چکی تھی، جیسا کہ ہمیں بوشؔ کے عالی شان شہ پارے میں نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جہاں ابتدائی دور کی راہبانہ زندگی کی عسرت اور بے مائیگی کے دقیانوسی مثالی کردار جنہوں نے مذہبی راہنماؤں کو متاثر کیا تھا محض قصے کہانی بن کے رہ چکے تھے۔ اب عبادت گاہوں کو چلانے والے بادشاہوں کے مقابل تھے، وہ پُر تعیش زندگی اور ایک سماوی جاہ و جلال کے رکھ رکھاؤ میں اکثر بادشاہوں سے آگے نکل جایا کرتے تھے۔یہ ایک دلوں کو دہلا دینے والی حقیقت تھی جو لوگوں کے سامنے انتہائی سنگین قسم کی الجھن کے طور پر موجود تھی۔ کیوں کہ اگر یہ زندگی اتنی وحشت ناک تھی تو پھر امید کی کرن صرف اگلے جہان میں ایک بہتر زندگی سے وابستہ رہ جاتی تھی۔ ایک بار جب یہ عقیدہ جاتا رہے تو پھر مایوسی کی تاریک ترین رات ہی باقی بچتی ہے۔ کلیسا کی بالا دستی کو درپیش سوالات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ صدیوں سے چلے آ رہے اقتدار کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے خاتمے کی گھڑیوں کے قریب آنے کا اظہار یوں ہوا کہ لوگوں نے نجات کے لیے عبادت گاہوں سے باہر دیگر ہر طرح کی متصوفانہ اور تواہمانہ تحریکوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی، جن میں سے بہت سی ایسی تھیں جو کہ جدید مذہبی اعتقادات کے بھیس میں خطرناک اور تخریبی تحریکیں تھیں۔یہ وہ دور تھا جب برہنہ پا چیتھڑوں میں ملبوس ہجوم کے ہجوم سڑکوں پر نکل آتے اور لہولہان ہو جانے تک خود پر کوڑے برساتے۔ خود کو اذیت دینے والا یہ فرقہ قیامت کا منتظر تھا، اور یہ انتظار ہر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد دوسرے کی توقع میں شروع ہو جاتا۔ آخر میں جو ہوا، وہ دنیا کا خاتمہ تو نہیں تھا، بلکہ جاگیر داری کا خاتمہ ہو گیا، اوربجائے مسیح کی حیات ثانیہ کے سرمایہ داری گلے پڑ گئی۔ لیکن ہم اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کو سمجھ پائے ہوں گے۔جاگیردارانہ سماج کے زوال اور ابھرتی ہوئی سرمایہ داری نے خیالات کو مہمیز لگا دی اور ایمان کو بحرانی حالات کے سامنے لا کھڑا کیا، جس کا اظہار انگلستان میں لولارڈ اور جان ویکلِف، اور بوہیمیا ]اب چیک ریپبلک[ میں ہاسائٹؔ کی مخالفانہ تحریکوں کی شکل میں ہوا۔ یہ وہ دنیا تھی جو کہ ایک سماجی اور مذہبی انقلاب کے دہانے پر کھڑی تھی۔ پرانی دنیا مغزِ استخواں تک بوسیدہ اور گلی سڑی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بری طرح ڈگمگا رہی تھی اورمنتظر تھی کہ اس کو اٹھا کر پھینک دیا جائے، یہ ہرگز بقا کے قابل نہیں رہی تھی۔ان تصاویر کے جوہر میں بھی وہی محرک پنہاں ہے جو کہ خود کا اذیت دینے والوں کو سڑک پر لایا تھا۔ وہ انجام کے نشے میں مخمور تھے۔ شہروں اور دیہاتوں میں ان اذیت پسند فرقوں کا ندامت بھرا کرب ناک نظارہ آہوں، سسکیوں اور کراہوں سے معمور ہوتا تھا جن کا تسلسل کبھی ایسی ہولناک چیخ توڑ دیتی جب کسی کی زخمی پشت کی چیرے ہوئے زخم میں چابک کا تسمہ جا کے زخم کو تازہ کرتا، اور تب یہ روز کا معمول تھا۔ یوہان ہوئی زِنگا نے اپنی شہرہ آفاق کتاب”عہد وسطیٰ کے انحطاط“ میں لکھا ہے:”مجموعی طور پر قہر اور دکھ کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ ہر جانب ایک دائمی خطرے کا احساس جاگزیں تھا۔۔۔ایک عمومی عدم تحفظ کا احساس جو مسلسل جاری رہنے والی جنگوں، اور انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، آگے آنے والے دنیا کے خاتمے کے وہم کے، دوزخ کے، جادوگروں کے اور شیطانوں کے خوف کی بدولت شدید صورت اختیار کر گیا تھا۔۔۔ہر جانب نفرت کی آگ کے شعلے رقصاں ہیں، اور ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ شیطان نے اندھیرے میں ڈوبی اس کہر زدہ زمین کو اپنے تاریک اور ظلیل پنکھوں سے ڈھانپ رکھا ہے“۔یہ بات درست ہے کہ نجات کا وعدہ اور ایک ابدی زندگی کا وعدہ زبانی کلامی حد تک موجود ہے، لیکن حقیقت میں سارے دور کا عمومی لُبِ لباب تیرگی کا سیاہ ترین درجہ ہے۔ یہ یاسیت بھرا احساس اس دور کی شاعری میں ہویدا ہے، جیسا کہ ہم ذیل میں فرانس کے ڈیشامپ کی نظم میں دیکھ سکتے ہیں جو کہ دنیا کو ایک قریب المرگ ضعیف و ناتواں پیر مرد سے مشابہ کر کے دیکھ رہا ہے۔”Or est laches, chetis et moltz,Vieux, convoiteux et mal parlant;Je ne voy que foles et folz…La fin s’approche, en verité …Tout va mal.“اب یہ دنیا بُزدلانہ طور پر، دیمک زدہ، خستہ، کہن زدہ،ہوس گزیدہ اور مخبوط الحواس نظر آ رہی ہے،مجھے یہاں صرف نر احمق اور مادہ احمق دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔سچ کہوں تو انجام کی گھڑی آن پہنچی ہے۔۔۔ہر شئے کا بیڑہ غرق ہے۔ہے وینؔ یا روپے کی طاقتہے وین ]لفظی معنی، بھوسا لے جانے والا چھکڑا۔ یہاں بوشؔ کی پینٹنگ مراد ہے[جاگیر داری میں معاشی طاقت کا اظہار زمین کی ملکیت کیا کرتی تھی۔ روپے پیسے کا کردار ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن تجارت اور صنعت کاری، اور ان کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے منڈی کے شروعاتی تعلقات نے روپے پیسے کو بھی اتنی ہی عظیم طاقت بنا کھڑا کیا۔ لیکن دولت کی اس فراوانی کے ساتھ دوسری جانب سوادِ اعظم کی حالت زار بدحالی، الم ناک، وحشت انگیز اور مختصر ہو گئی تھی۔ جاگیر دارانہ سماج میں کسانوں کی زندگی عام حالات میں بھی انتہا کی سخت تھی۔ لیکن جاگیر داری کے آخری دور میں حالات عام ماضی سے بھی کہیں ابتر ہو چکے تھے۔سرمایہ داری کی اٹھان، خاص طور پر ہالینڈ میں جہاں یہ اٹلی کو چھوڑ کے باقی کسی بھی دیگر ملک سے پہلے نمودار ہوئی، اپنے ساتھ نئے رویے لے کر آئی جو کہ دھیرے دھیرے ایک نئی اخلاقیات اور نئے مذہبی اعتقادات کی شکل میں مجسم ہو گئے۔ ہینسیاٹک لیگ انگلستان سے لے کر روس تک سو کے قریب شہروں میں تجارت (کامرس) کی نگرانی کر رہی تھی۔ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جا رہے تھے۔ فُگرزؔ جیسے طاقتور بینکار خاندان ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے بادشاہوں کے اختیار کو بھی للکار دیا تھا۔ ایک نئی طاقت ابھر کر سامنے آئی تھی، ایک ایسی طاقت جس نے پرانے سماج اور اس کی اقدار کے تانے بانے کو ادھیڑ کے رکھ دیا تھا۔ یہ زر کی طاقت تھی۔ہر جانب ایک نیا دور تھا۔۔مادیت اور کمرشلزم کا دور۔ آرٹ دھیرے دھیرے خود کموڈیٹی بن چکا تھا۔ اگر آرٹسٹ کامیاب ہوتا تو وہ دولت اور رتبہ حاصل کرنے کے قابل ہو جاتا تھا۔ لیکن اکثریت وہ تھی جو کہ محض پرولتاری فنکار تھے یا اپنے عروج پر ہوں تو دستکار تھے۔اپنی عظیم سہ لوحی تخلیق ہے وین (1485-90، پراڈو، میڈرِڈ) میں بوش نے ایک ایسی دنیا کو دکھایا ہے جو کہ لالچ اور تشدد کی مدد سے چلائی جا رہی ہے؛ یہاں ساری نسلِ انسانی ’ہے وین‘ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ بھوسے سے بھرا ایک چھکڑا جو کہ بوش کی تصویر میں دکھایا گیا ہے، پندرھویں صدی کے لوگوں کی ایک جھلک دکھاتا نظر آ رہا ہے، جیسے کہ یہ سردی کے موسم میں خوراک کے ذخیرے کی، یا دوسرے لفظوں میں خوش حالی کی علامت کے طور پر ہو۔ لیکن یہاں یہ بھوسا دولت اور زر کی طاقت دکھا رہا ہے۔ یہ ہمیں ہالینڈ کی قدیم کہاوت یاد دلاتا ہے، ”یہ دنیا بھوسے کا ایک ڈھیر ہے اور ہر کوئی اس میں سے مقدور بھر اٹھا لے جاتا ہے“۔ تمام انسانیت اس بھوسے کے حصول کے سحر میں گرفتار ہے جس کو سات شیطان کھینچ کر دائیں جانب بھڑکتے جہنم کی آگ کے شعلوں میں ڈالنے لے جا رہے ہیں۔ہے وین کی تصویر کے سامنے والے منظر کی تفصیل خاصی بد نظم ہے۔ ہر کوئی ”بھوسے“ کا کچھ حصہ پانے کے لیے جھگڑ رہا ہے۔ اسی سامنے کے منظر میں ایک آدمی دوسرے آدمی کا سونا ہتھیانے کے لیے اس کا گلا کاٹ رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کردینے کے لیے یا ایک دوسرے کے اوپر سے چھکڑے گزار کر بھی دولت بٹورنے کے لیے تیار ہیں۔ عورتیں اس کے لیے اپنے جسموں کی نیلامی کر رہی ہیں۔ مجسٹریٹ دولت کی خاطر اپنی توقیر بیچ رہے ہیں۔ دائیں جانب، پاتال کے عجیب الخلقت بھوتوں جیسی مخلوقات کا ایک جتھا اس چھکڑے کو کھینچ کر لے جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک مخلوق آدمی اور مچھلی کا مرکب ہے؛ دوسری کا کچھ حصہ ایک پرندے پر اور تیسرا ایک کنٹوپ پہنے بندہ ہے جس کی کمر میں سے شاخیں اُگتے ہوئے نکلی نظر آ رہی ہیں۔اس چھکڑے ”ہے وین“ کے آس پاس کی تفصیل کو دیکھیں تو ایک زمینی تودے میں لگے ایک لکڑی کے دروازے میں سے بہت سے لوگوں کو نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ چھکڑے کے گردا گرد بہت سے لوگ ہیں جو کہ بھوسے کی ایک مُٹھی پانے کے لیے آپس میں لڑتے جھگڑتے پہیوں کے نیچے آ رہے ہیں۔ اگر ہم اس تصویر کے سامنے والے حصے کو دیکھیں تو ہمیں دو راہبائیں ایک موٹے راہب کے لیے بھوسے کا بورا بھرتے نظر آتی ہیں، جو کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھا اپنے مالِ غنیمت بٹورنے کی نگرانی کرتے ہوئے اپنی مقدس شراب کے گھونٹوں کے مزے لیتا دکھایا گیا ہے۔ اس میں محض کلیسا کی جانب سے لوگوں کو مونڈنے کا بیان ہی نہیں ہے بلکہ راہباؤں اور راہبوں کے مابین ناجائز جنسی تعلقات کی جانب اشارہ بھی موجود ہے۔ یہ اس وقت کا ایک عام نظریہ بن چکا تھا، اور ایسا کسی معقول وجہ کے بغیر بھی نہیں تھا۔ کلیسا سے متعدد سکینڈل منسوب تھے؛ ایمان والے خود کو بدکار اور بھٹکا ہوا باور کرتے تھے۔کلیسا کا شمار اس وقت کے سب سے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ پروہت اور پادری اگرچہ خیرات کا اور غربت کا درس دیتے تھے لیکن ایک دیندارانہ زندگی گزارنے کی بجائے وہ اپنی مادی آسائشات پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ کلیسا کی دولت کا ایک بڑا حصہ نجات ناموں کی فروخت سے حاصل ہوتا تھا جو کہ کاغذ پر اس بات کا وعدہ ہوتا تھا کہ خریدار کو اس کی دی گئی دولت کے عوض عالمِ برزخ کی سختیوں سے نجات مل گئی ہے۔ نجات نامے بیچنے والا بدنامِ زمانہ پادری ہانز دیتسؔ بڑی شیخی سے بڑ ہک لگایا کرتا تھا کہ ادھر اس کے کھیسے میں سکے گرتے ہیں اور ادھر اسی وقت روحیں چھلانگ لگا کرجہنم سے باہر آ جاتی ہیں۔ کلیسا کے متعلق بوشؔ کیسے سوچتا تھا یہ بھوسے کے پیچھے حریصانہ انداز میں بھاگتے راہباؤں اور پادریوں کی موجودگی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ہے وین تصویر کی تفصیل میں صرف ایک شبیہ جو کہ پُرسکون اور الگ تھلگ سی لگ رہی ہے یہ دنیا کے امیر لوگوں کی ہے؛ بائیں جانب ایک شہنشاہ، ایک بادشاہ اور ایک پوپ گھوڑوں پر سوار بڑی صفائی سے ایک بناوٹی فاصلہ بناتے ہوئے واہیات طریقے سے اس خشک گھاس سے لدی گاڑی کی حفاظت کرتے ہوئے اس کے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ بے اعتنائی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان کا اس چھکڑے کے پیچھے نہ بھاگنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ پہلے ہی سے کافی زیادہ ”بھوسا“ اپنے قبضے میں لے چکے ہیں۔۔۔لیکن درحقیقت وہ بھی اس کے وفادار اور فرمانبردار غلام ہیں، اور وہ بھی ایک درشتی کے ساتھ یومِ حساب کی جانب گامزن ہیں۔بدی کا چہرہجرمنی کے بعد کے گوتھک آرٹ میں اٹلی کی نشاۃ ثانیہ کی نئی روح جھلکنا شروع ہو گئی تھی۔ لیکن جہاں اطالوی آرٹ دھوپ اور روشنی سے لبریز تھا وہیں ان دنوں کا جرمن آرٹ تاریک ہے، اس کا موضوع ہیبت ناکی ہے اور اس کا طرز مسخ شدہ ہے۔ یہ آرٹ دو دنیاؤں کے درمیان معلق ہے۔ اس کا کردار عبوری ہے کیوں کہ یہ ایک روایتی دور کی پیدائش ہے جو کہ آخری دور کی جاگیرداری اور ابتدائی سرمایہ داری کے چوک پر کھڑا ہے۔ایزن ہائم کی قربان گاہ جرمن مصور ماتھیاس گروُنے والڈ کی 1506ء سے 1515ء کے دوران پینٹ کی گئی ایک قربان گاہ کی تصویر ہے۔ اس میں تصلیب کے عمل کو انتہائی اذیت پسند اور ظالمانہ طور سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں کہیں کوئی سکون کا، آرام کا پہلو دکھا ئی دے رہا ہے اور نہ ہی کہیں موت کے بعد کی زندگی میں نجات کی صورت دکھائی دے رہی ہے، بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی ظلمت اور سیاہی نظر آ رہی ہے۔ وہاں موجود شیطان بدی کی فتح کا استعارہ ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت کا آرٹ ہے جہاں خوف اور اندیشوں کا راج ہے۔ اور یہ مصیبت کی ایک ایسی گھڑی کے دوران اجتماعی شعور کے تاریک ترین گوشوں تک میں نفوذ کر چکے ہیں جب آدمی اور عورتیں ہر جانب سے بدی کی بے قابو قوتوں کے نرغے میں پھڑپھڑا رہے ہیں۔اپنی تصویر تضحیکِ مسیح میں بوش نے انسانوں کو شیطان کے روپ میں دکھایا ہے، ان کے چہرے غیر انسانی تاثرات سے مسخ پڑ چکے ہیں۔ پونٹیئس پائلیٹ (مسیح کی تصلیب کے وقت کا رومن گورنر) کے کردار سے حکمرانی کے نشے کی جھلک نظر آ رہی ہے، جو کہ ایک مکروہ، گھٹیا، مکار اور منافق قسم کا انسان دکھایا گیا ہے۔ ان میں صرف ایک صورت ایسی نظر آ رہی ہے جسے انسان کہا جا سکتا ہے اور وہ مسیح کی اپنی صورت ہے، جو کہ کچھ دیر میں شہادت پانے والا ہے۔ یہاں پھر سے انسانیت کو پیش کرنے کا نظریہ منفی صورت لیے ہے، یہ ایک ایسی دنیا کا نظریہ ہے جو کہ تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جہاں انسانیت کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔گینٹؔ شہر کے فائن آرٹ کے عجائب گھر میں ایک اور تصویر میں مسیح کو صلیب اٹھائے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ہمیں ایک تنہا اور تھکے ماندے مسیح کی صورت نظر آتی ہے جو کہ ہر طرف سے خونی درندوں اور شیطانوں والے چہروں کے حامل آدمیوں میں گھرا ہے۔ یہ اس قدر بدعنوان لوگوں کے چہرے ہیں جو ہر طرح کے انسانی خاصے اور محسوسات کھو چکے ہیں۔ بہرحال اگر ہم اس کو باریک نظر سے دیکھیں تو مکمل طور پر ایسا بھی نہیں ہے۔ بوش کی نظر میں تمام انسانیت ایسی نہیں بلکہ محض اس کا ایک مخصوص سماجی گروہ ایسا ہے۔ یہ چہرے غریب عوام کے نہیں ہیں، بلکہ یہ متمول تاجروں کے، سرداروں کے اور دیگر بااختیار لوگوں کے ہیں جن میں ایک جنسی شیطان ڈومینیک پروہت بھی شامل ہے۔بوشؔ کی تصویروں میں گناہ گاروں کو دوزخ کی اذیت ناکیاں جھیلتے کسی بھی مخصوص قسم کے جذبہ رحم کے بغیر پینٹ کیا گیا ہے، وہ ان لوگوں کے لیے اپنی نفرت چھپا کر نہیں رکھتا۔ یہاں بھی ہمارے اپنے عہد کے لیے ایک سبق موجود ہے۔ بوش ایک ایسے دور میں مصوری کر رہا تھا جب منڈی کی قدریں اور زر ایک نیا مظہر تھا اور حال ہی میں ایک سماجی قوت کے طور پر ابھر کے سامنے آیا تھا۔ آج کل ہم کسی انسان کو ]تعریف کرتے ہوئے[ کہہ دیتے ہیں کہ وہ ”ایک کروڑ روپے کا“ بندہ ہے اور ذرا بھی نہیں سوچتے کہ ہم نے کیا کہا ہے۔۔۔کہ لوگ نری اشیا ]commodities[ بن کر رہ چکے ہیں، بکاؤ مال۔اپنے اختیار، دولت اور مراعات کے دفاع کرنے کے لیے دولت والے اور طاقت ور لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ (ضرورت پڑنے پر، یا بسا اوقات شوقیہ) خوفناک قسم کی درندگی اور ظلم کے نظارے دکھا سکیں۔ صلیب بردار مسیح کی تصویر میں غیرانسانی چہرے ان انسانوں کی روح کی طمع، بے لگام بھوک کے ندیدے پن سے مسخ شدہ چہرے ہیں۔ یہ کرہ ارض کے دولت مند اور بااختیار لوگوں کے چہرے ہیں۔۔۔یہ وہ چہرے نہیں ہیں جو کہ وہ دکھانا پسند کرتے ہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو کہ حقیقت میں ان کے چہرے ہیں۔ بوش ایک بے رحمانہ انداز میں ان کا مسکراتا مکھوٹا نوچ پھینکتا ہے تاکہ وہ بدکار درندہ عیاں ہو جائے جو اس کے پیچھے گھات لگائے بیٹھا ہے۔یقیناً بااختیار لوگ ایک الگ انداز میں خود کا دیکھا جانا پسند کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کو”انسانیت کے محسن“، ”روزگار دینے والے“، ”صنعتوں کے ناخدا“ وغیرہ کے طور پر جانا جائے۔ درباری خوشامدی پورٹریٹ بنانے والے مصور ان کو انہی کے من پسند انداز سے پیش کیا کرتے ہیں۔ ”ہے وین“کی تصویر اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نام نہاد منڈی کی مَعیشت کی پیداوار ہے جس نے دنیا کو مسخ کر چھوڑا ہے اور اس کی انسانیت کو ڈاکا مار کے اس سے چھین لیا ہے۔زمینی لذتوں کا باغمیڈرڈؔ (ہسپانیہ) کا ”پراڈو میوزیم“ بوش کے عظیم ترین شہ پارے زمینی لذتوں کے باغ کی آرام گاہ ہے۔ یہاں ہستی انسان کے المیے کی ترجمانی ایک قابلِ دید بے مثل فن پارے کی مدد سے کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک دیوانے کے خواب جیسا رنگ اور حرکت کا ہنگامہ ہے جو کہ دیکھنے والے کو قریب قریب گھُما کے رکھ دیتا ہے۔ تفصیلات کی اس بھیڑ میں ایسے ایسے گنگ کر کے رکھ دینے والے متضاد قربتوں (جکسٹا پوزیشن) کے نظارے ہیں کہ ایک ہی نظر میں سب کو سمو لینا ناممکن ہے۔ لیکن ہم ہر تفصیل پر ]الگ الگ[ تفکر بہرحال کر سکتے ہیں، ہم ان تصورات کی شان اور دلفریبی سے ششدر رہ جاتے ہیں۔زمینی لذتوں کے اس باغ میں بار بار ہمارا سامنا جس موضوع سے ہوتا ہے وہ ہے۔۔۔بہکاوا۔ یہ اپنے آپ میں خود ایک تضاد ہے اور متحارب رجحانات کی کش مکش کا اظہار ہے۔ شجرِ ممنوعہ کا پھل (مادی زندگی کی جنسی مسرتیں یا جسمانی گناہ) ایک پھل اور بے لباس پری چہرہ دوشیزہ کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔۔جو کہ منع کردہ ثمرات میں سب سے زیادہ چاہا جانے والا ہے۔ اسی متخیلہ کو سینٹ انتھونی کے بہکاوے ]کی تصویر[ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک نزدیکی جائزہ بتاتا ہے کہ بوش زمینی لذات کی نہیں بلکہ دوزخ کی اذیت ناکیوں کی تصویر کشی کر رہا ہے۔زمینی لذات کے باغ کی تفصیلات ایک سہ لوحی تصویر (جیسی کہ ہے وین والی تصویر ہے) کی صورت میں موجود ہیں، یعنی یہ تین حصوں میں منقسم ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے مخصوص علامتی انداز میں یہ ایک تمثیلی کتھا ہے۔ یہ ہمیں ایک قصہ سناتی ہے۔ بلکہ یوں کہیں تو زیادہ درست ہو گا کہ یہ انسان کی عظمت سے گر جانے کی کہانی سناتی ہے۔ اگر ہم اس کو بائیں سے دائیں جانب کو دیکھیں تو اس کی شروعات باغِ عدن سے ہو رہی ہیں۔ لیکن اس بہشت میں بھی گناہ کے بیج پہلے ہی سے موجود ہیں۔ یہاں ہم پہلے سے موجود بھیانک عفریت دیکھتے ہیں: ایک ایسی مچھلی جس کے ہاتھ انسان کے ہیں اور سر بطخ کا ہے ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوئے پانی کے ایک چھوٹے سے جوہڑ سے نمودار ہو رہی ہے۔ ایک شیر نے اپنا شکار مارا ہے اور وہ اسے چیر پھاڑ کر ہڑپ کرنے کو ہے۔ بے ڈھنگی شکل والا زندگی کا فوارہ جو کہ تصویر کے وسط میں ہے اس کی پھننگ پر ایک ہلال آراستہ ہے، جو کہ شیطان کی، ترکوں کی اور ان کے مذہب کی علامت ہے۔ان میں سب منحوس وہ الو دکھ رہا ہے جو کہ فوارے کے نچلے حصے میں موجود ایک سوراخ میں سے باہر ٹکٹکی لگائے بیٹھا ہے۔ اگرچہ پرانے ایتھنیائی اس پرندے کو عقل کی دیوی ایتھینا کے ساتھ منسوب کرتے تھے (چنانچہ دانا الوُ)، قرونِ وسطیٰ میں رات کے اس پنچھی کو اس کی چیختی آواز سمیت بدی کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا۔ بوشؔ کے کام میں الوُ کو جابجا دیکھا جا سکتا ہے۔درمیانی تختی زندگی کے وسیع منظر کو پیش کرتی ہے: ان میں عریاں شبیہیں، تخیلاتی جانور، معمول سے بڑے اور پکے ہوئے فواکہات اور دونسلے پتھروں کے بنے ٹیلے موجود ہیں۔ جناتی قامت کی سٹرابریاں جن کا مزا چکھنے کی خاطر مرد جانیں لڑانے کو تیار ہیں بہکاوے کی ایک علامت کے طور پر ہیں، جس کی واضحشکل جنسی تعلقات ہے۔ بڑی سی مچھلی جو کہ ہر جانب نظر آ رہی ہے لنگ کی علامت ہے۔ پہلی تختی میں انسان (آدم اور حوا) جانوروں سے بڑی قامت کے ہیں اور وہ بعینہ اسی جسامت کے ہیں جس جسامت کا مسیح (خدا) ہے۔ لیکن ان کی جہتیں بدل کے رکھ دی گئی ہیں۔درمیانی تختی بہت سے ایسے پرندوں پر مبنی ہے جو کہ انسانوں کے ساتھ اختلاط رکھے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہ ان کو (ممنوعہ) پھل لا لا کر کھلا رہے ہیں۔ اس جگہ ہمیں ایک جینئس کے سٹروک ملتے ہیں جو کہ ہمیں سریئلزم کے نزدیک لے جاتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں پرندوں کو عموماً بے ضرر جانا جاتا ہے۔ ہم ان کی جانب ان کے رنگ برنگ پنکھوں اور سریلے گیتوں کے باعث ملتفت ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ان کی موجودگی نحوست اور دہشت کی علامت کے جیسی ہے۔ ان کے قدوقامت کو بڑھا دیا گیا ہے جو کہ انسانوں کی نسبت کہیں قوی الجثہ ہیں۔ اپنی خالی خالی ٹکٹکی جمائے آنکھوں اور طاقت ور اور تیز دھار چونچوں کے باعث یہ اپنے اردگرد کے ننگے اور نہتے لوگوں کے لیے خاصے خطرناک نظر آ رہے ہیں۔زمینی لذات کے باغ میں ہر قدم پر خطرہ ہے۔ بوشؔ ہمیں تمام دنیاوی مسرتوں کی ناپائیداری کے بارے میں چتاونی دے رہا ہے۔ رسیلے خوش ذائقہ پھلوں کا میٹھا سواد جلد ہی نابود ہونے کو ہے۔ تمام نسلِ انسانی صرف ایک سمت میں رواں ہے اور یہ وہ ہے جو کہ دائیں ہاتھ کی تختی کی جانب ہے۔ یہاں جہنم کے مناظر میں جہنمیوں کو عذاب دینے کے کرب ناک نظاروں کو نہایت تفصیل کے ساتھ تصاویر کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔لعین صورت اپنے اپنے گناہوں کے مطابق سزایاب ہو رہے ہیں: بسیار خوروں ]مسیحیت میں بسیار خوری سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے[ کو دائمی الٹیاں کرنے کی سزا ملی ہوئی ہے یا پھر (ان کی یہ الٹیاں) شیطان نکال رہا ہے جس کا سر پرندے کا ہے۔ ایک آدمی (جو کہ ممکنہ طور پر اپنی زندگی میں موسیقار رہا ہو گا) کے سارے جسم میں سے بربط کے تار گزار دیے گئے ہیں، وہیں ایک اور کے پیچھے ایک بانسری کو گھسیڑ دیا گیا ہے۔ یہاں مختلف انواع کی محیرالعقول بلائیں اور شیطان موجود ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی کسی بھیانک سپنے سے کم نہیں۔تاہم دوزخ کی ان بلاؤں میں سب سے زیادہ بھیانک اور عجیب وغریب وہ شجری انسان ہے جو کہ اس تصویر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس کا کھوکھلا دھڑ جو کہ دو بوسیدہ پیڑوں پر کھڑا ہے، تیز نوکیلی شاخوں سے چھدا پڑا ہے جو کہ اس کے خود کے جسم کو پھاڑ کر باہر نکلی ہیں۔ اس شجری انسان کی نگاہیں کہیں باہر دیکھنے والوں سے پار گھور رہی ہیں، اس کے حیرانی بھرے حسرت ناک اور افسردہ تاثرات اس امکان کا اظہار کرتے ہیں کہ جیسے یہ شجری انسان خود بوش کا اپنا ہی پورٹریٹ ہے جو کہ انسانیت کی گراوٹ کا تماشا انتہائی کرب ناکی سے دیکھ رہا ہے۔تضاداتیہ عجوبہ روزگار تصاویر روشنی اور ظلمت کے مابین انتہا کا تضاد دکھاتی ہیں، لیکن انجام کار جیت ہمیشہ اندھیروں کی ہی ہوتی ہے۔ یہاں آن کر قرون وسطیٰ کے تمام ڈراؤنے خواب مل ملا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں دوزخ کی تمام آتش ناکی اور اذیتیں موجود ہیں۔ یہاں ایک ابدی لعنت اور تاریکی ہے، ہر جانب آہ و بکا اور دانتوں کی کچکچاہٹ کا راج ہے۔بوش کی ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک زبردست قسم کے تضاد کا احساس جکڑ میں لے لیتا ہے۔ ان بے جوڑ رجحانات کی کرب ناک کشمکش کو ہم محض دیکھتے ہی نہیں: ہم اس کو محسوس کرتے ہیں، چھوتے ہیں، سنتے ہیں اور اس کو سونگھتے ہیں۔ یہ تخیلاتی ہیولے زندگی سے اس قدر بھرپور ہیں کہ تصویر سے باہر نکل کر آپ کو گلے سے دبوچ لیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ہم میں سریئلزم کے آرٹ والا تاثر پیدا کرتا ہے، جو کہ اسی طور کے تاریخی حالات کی پیداوار تھا۔ اس میں بھی اسی طرح کے بین السطور تضادات ہیں، جن کو ایک کٹھورتا کے ساتھ اک دوجے کے ساتھ رکھتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔بوش نے اس زمانے کی تصویر کشی کی ہے جس میں وہ رہتا تھا اور اس نے اس کو ایک آئینے کی طرح منعکس کر دیا ہے۔ یہ زمین دوزخ کا ایک نمونہ ہے۔ لیکن مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے پندرھویں صدی ویسے ہی زمین پر ایک طرح کی جہنم ہی تھی۔ یہاں عظیم الشان قسم کی تخیلاتی گہرائی ملتی ہے۔ سارے عظیم آرٹ کے طرح یہ بھی سطح پر ٹھہرنے کی بجائے انسان کی روح کے عمیق ترین گوشوں تک میں اتر کر اس کے خفیہ ترین اور بھیانک ترین خواب نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہاں آرٹ زندگی کی نقالی ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں انسان بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر رہے تھے وہیں ہم ہول ناک قسم کی شکم پرستی کے نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں بھی بڑے پیمانے پر غربت اور امارت کی عدم مساوات بالکل اسی طرح سے موجود ہے جیسے ہمارے اپنے یہاں بے انصافی اور نابرابری ہے۔ حقیقت میں اس فریاد رساں ظلم و بے انصافی کی داد رسی سے خود کو معذور پاتے ہوئے بوش ان کو اپنی مصوری میں سزائیں دیتا ہے۔ ان ملعونوں کی سزاؤں کی نوعیت کو ان کے گناہوں سے نہایت قریبی نسبت ہے۔ مغرور اور ہَوس پرست عورتوں کو مینڈکوں اور چھپکلیوں کے ساتھ اختلاط میں دکھایا گیا ہے جو کہ ان کے اعضائے مخصوصہ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ مسیحیت کے نظریے کی عورت سے نفرت کی ماہیت کاایک اظہار ہے جس کے مطابق پہلا گناہ اماں حوا کی ایجاد تھا۔ موسیقاروں کو ان کے اپنے آلات سے عذاب دیا جاتا ہے جو کہ یہاں تشدد اور ایذا رسانی کے آلات میں ڈھل چکے ہیں۔باوجود اس کے کہ یہ حیرت ناک طور سے جدید معلوم ہوتا ہے پھر بھی ان تصاویر کی تحریک کی جڑیں ماضی کے عہدِ وسطیٰ میں ہیں۔ یہ ہمیں گِرجا گھروں کے باہر دیواروں پر شیطانوں اور گناہ گاروں کی عجیب الخلقت تصویروں کی شکل میں ملتا ہے۔ جیسے کہ حیوانی شکلوں کے پرنالوں وغیرہ پر دیکھا جا سکتا ہے (گارگوئیلز)۔ بے شک یہ قدیم آرٹ کا زندہ ترین حصہ تھا۔ لیکن اب تک جو یہ ایک ماتحت کا کردار ادا کرتا آ رہا تھا، اب یہاں یہ کھُل کر سامنے آتا ہے اور اپنی زندگی خود سے پا لیتا ہے۔اصلاح پسندی اور ردِ اصلاح پسندیآخر کار سن 1516ء میں بوش کو موت نے اس کے آبائی شہر سیتوغن بوش میں جا ہی لیا۔ اس کے ایک سال بعد ایک نوجوان راہب مارٹن لوتھرؔ نے وٹن برگ کے گرجے جا کر اپنے 95 مقالات اس کے دروازے پر ٹھونک دیے۔ یہ جاگیرداری کے خلاف بورژوازی کی بغاوت کا پہلا اظہار تھا، جو کہ لامحالہ مذہبی احتجاج کی صورت میں سامنے آیا۔ پروٹسٹنٹ مذہب نے اپنی بنیاد میں سرمایہ داری کی سوچ اور مفادات کی نمائندگی کی۔ دقیانوسی جاگیردارانہ نظام کو اپنے انتہا کے جنونی نمائندے ہسپانیہ کے کیتھولک کلیسا میں ملے۔تمام یورپ اب مذہبی جنگوں کے بھیس میں چھپے انقلاب اور ردِ انقلاب کے دور میں آن پہنچا تھا۔ یہ دور اب موت کی رقص گاہ میں داخل ہونے کو تھا جس کو اگلی تین دہائیوں تک جاری رہنا تھا۔ وہ آگ جو کہ بوش کی خشم ناک متخیلہ نے جہنم بارے دیکھی تھی ہالینڈ، جرمنی اور بوہیمیا کے شہروں میں بھڑک اٹھی۔ ایسی اور کوئی جگہ نہیں جہاں مذہبی جنگیں ہائیرونوموس بوش کے مادرِ وطن کی نسبت زیادہ خونریزی سے لڑی گئیں، یہاں تاریخ کا سب سے پہلا بورژوا انقلاب ہسپانیہ کے خلاف نیدرلینڈ کی قومی آزادی کی جنگ کے طور پر روُنما ہوا تھا۔بوش کی جانب سے دکھائی جانے والی اذیتیں بالکل اسی جیسی ہیں جو کہ ہسپانیہ کی مذہبی عدالتیں بے یارومددگار مردوں اور عورتوں کے جسموں پر مذہب کے نام پر تشدد اور ایذارسانیوں کے پہاڑ توڑتے ہوئے حقیقت میں دیتی تھیں۔ الباؔ کے خبیث ڈیوک نے جب نیدر لینڈ کی پہلی پروٹسٹنٹ بغاوت کو خاک اور خون میں لتھیڑتے ہوئے فرو کیا تو بوش کی بہت سی معروف تصاویر اپنے ہمراہ سپین لے گیا۔ سپین کا بادشاہ فلپ دوئم ایک مذہبی جنونی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مخالف صلیبی جنگوں کا سردار تھا، بوش کا ایک جوشیلا مداح تھا۔ اس نے بوش کے وہ تمام کام جو کہ اس کے ہاتھ لگے یا تو خرید لیے اور یا پھر چھین لیے، ضبط کر لیے۔ اس نے ان سب کو اپنے ایسکورئیل محل میں رکھا، جو کہ خانقاہی اور شہنشاہی طاقت کے مرکز کا عجیب ملغوبہ تھا۔ایک میز جس کا”موٹیف“ سات کبیرہ گناہ ہیں بوش نے تصویر کَش کر کے اپنی خواب گاہ میں رکھ چھوڑا تھا جو کہ اس کے مرتے سمے تک وہیں تھا۔ وہ ایک مخفی انتباہ لیے تھا: ”خبردار، خدا دیکھتا ہے“۔ لیکن یہ بات بہرحال مشکوک سی ہے کہ فلپ بھی کچھ دیکھ پایا ہو۔ وہ نہ تو بوش کو سمجھ پایا نہ ہی اس کی تصاویر کو، جو کہ کلیسائے روم کی درندہ خوئی کی اور اس کی گھناؤنی کرتوتوں کی کھلم کھلا مذمت ہیں، جیسے کہ ایک خنزیر کی وہ ناقابلِ فراموش تصویر جس میں وہ تھوبڑے پر راہباؤں والا حجاب پہنے ہوئے ایک آدمی کو کسی دستاویز پر دستخط کرنے پر مائل کر رہا ہے، غالباً یہ راہبہ اس کو اپنا دنیاوی مال و دولت چرچ کو دان کرنے کی جانب اکسا رہی ہے۔ یہ تصاویر کلیسا کی اخلاقی گراوٹ اور اندرونی سڑاہٹ کی واضح طور پر منظر نگار ہیں۔یہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز مذاق ہے کہ بوش کے کاموں کی اصلاح پسندی کے مخالفوں کے قائدین کی جانب سے جوش و جذبے کے ساتھ توثیق کی گئی۔ جیسے کہ شاہ فلپ کا ’فرے ہوزے دے سیگوئنزا‘ نامی کونسلر۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بوش کی تصاویر میں کسی راہبہ یا راہب کی ایک بھی تصویر ایسی نہیں ملتی جس کو مذہب کے حق میں موافق کہا جا سکے۔ اگر تو بوش کسی چیز کے لیے راستہ ہموار کر رہا تھا تو وہ کلیسائی راج کا خاتمہ تھا نہ کہ اس کا دفاع۔ یہاں تک کہ یہ کہنا کسی طرح بھی غلط نہیں ہو گا کہ لوُتھر نے بوش ہی کے ان غیرمربوط خیالات کو ایک مربوط شکل دی تھی جن کو اس نے آرٹ میں پیش کیا تھا۔ اس لحاظ سے آرٹ تاریخ کی پیش خبری کرتا ہے۔کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بوش بھی متعدد الحادی اور بدعتی فرقوں میں سے ایک فرقے کا رکن تھا جو کہ اس زمانے میں بالکل اسی طرح سے نمودار ہوئے تھے جیسے کسی طوفانِ باد و باراں کے بعد زمین سے کھُمبیاں نکل آتی ہیں۔ ولہلم فرینجر نے اس بات کو ثابت کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ ایک منحرف مذہبی فرقے ”آدمیت“ ]Admites[ کا رکن تھا۔ وہ اک دوجے کو بھائی اور بہن کہتے تھے، اور ان میں عورت کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ وہ باغِ ارم کی مسرتوں اور درخت کا جشن منایا کرتے تھے۔ وہ آدم اور حوا کے گرائے جانے سے پہلے کی طرح ایک ساتھ عریاں ہو کر عبادات کیا کرتے تھے۔ یہ ایک انقلابی خیال تھا جو کہ بشری برابری ]Egalitarianism[ کے خیال سے لیس تھا۔ فرینجر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ بوش کی تصاویر آدمیت کے ماننے والوں کے شعائر پر مبنی ہیں۔ تاہم، دیگر مصنفین نے اس بات سے اختلاف کیا، اور اس بات کا ایک بھی حقیقی ثبوت نہیں ہے۔تب اور اببوش کو قرون وسطیٰ کے آخری مصور کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کے فن کا ذکر کرتے ہوئے والٹر بوسن نے لکھا ہے:”بر لبِ جان قرونِ وسطیٰ اپنی ابدی موت کو گلے لگاتے سمے بڑی ہی شان سے بھڑک اٹھا تھا“۔ (ہائیرونوموس بوش، سن 1450ء تا 1516ء: جنت اور دوزخ کے مابین) لیکن یہ آرٹ ہمیں ہرگز عہدِ وسطیٰ کا محسوس نہیں ہوتا۔ یہ ہم سے واضح اور ببانگِ دُھل مخاطب ہے۔ یہ محض ایک اشارہ ہے کہ اس کا سٹائل اور تکنیک خوف ناک حد تک جدید ہے۔ اس آرٹ کا اس سندیس سے گہرا رشتہ ہے جو کہ اس کے بھیتر چھپا ہے۔ یہ وہ آرٹ ہے جس کے پاس کچھ ایسا ہے جو کہ وہ لازمی طور پر کہنا چاہتا ہے۔ یہ سامنے آ کر حقیقت کو بے باکی سے دیکھتے ہوئے ہم سے مانگ کرتا ہے کہ ہم اس پر فیصلہ صادر کریں۔ یہ کتنا مختلف ہے آج کے خصی آرٹ سے جو زندگی سے بالکل کٹا ہوا ہے۔بوش نے ایسے وقت میں مصوری کی جب سرمایہ داری اپنے بالکل ابتدا میں تھی۔ اس کا روشن دور ابھی تک مستقبل کے پردے میں چھپا پڑا تھا۔ یہ بوش کے احاطہ نظر سے باہر پنہاں رہا۔ وہ تمام واضح علامات جو اس کے سامنے تھیں یہی ظاہر کرتی تھیں کہ سماج اپنے آخری دور کی جانب رُو بہ زوال ہے۔ جب کبھی بھی کوئی دیا گیا سماجی اقتصادی نظام اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے ہمیں ایسی ہی علامات نظر آتی ہیں: معاشی بحرانات، جنگیں اور اندرونی خلفشار، اخلاقی انحطاط اور سوچ کا فقدان، جس کا اظہار پرانے مذہب اور اخلاقیات پر مسلسل کم ہوتے ہوئے اعتبار جو کہ اپنے ہمراہ بعید الفہم اور خلافِ عقل رجحانات، قنوطیت کی ایک عمومی فضا، مستقبل کے متعلق عدم اعتمادی اور فن و ثقافت کا زوال لئے ہوئے ہوتا ہے۔یہ وہ خصوصیات ہیں جن کی کسی ایسے سماج میں توقع کی جا سکتی ہے جو اپنا ترقی پسندانہ کردار کھو چکا ہو اوراپنی پیداواری قوتوں کی نشوونما اس طرح کرنے سے قاصر ہو جیسے وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ ہر معاملے میں یہی ایک احساس گھیرے رہتا ہے کہ ”دنیا کا خاتمہ آن پہنچا ہے“۔ قدیم روم میں اس عقیدے نے مسیحی مذہب کی تعلیمات کی صورت میں اپنا اظہار کیا تھا کہ یہ دنیا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اپنے حتمی انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جب کہ جاگیرداری کے دورِ آخر میں خود کو کوڑے مار کر اذیت پہنچانے والے فرقے قصبوں اور دیہاتوں میں جلوس کی صورت سفر کرتے ہوئے دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کی ترویج کیا کرتے تھے۔ ان دونوں معاملات میں جن چیزوں کا خاتمہ ہوا وہ دنیا تو ہرگز نہیں تھی لیکن بہرحال (دونوں صورتوں میں) واضع طور پر یہ ایک سماجی اقتصادی نظام کی موت ضرور تھی (غلام داری، جاگیر داری)۔اب جب کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی اپنے اختتام کو ہے، واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ داری خود اپنے آخری دور میں داخل ہو چکی ہے۔ہیرنومس بوش کی دنیا میں بہت سی چیزیں ہماری اپنی آج کی دنیا والی ہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل کی دنیا شورش، تشدد اور انتشار کی دنیا ہے۔ یہ 11 ستمبر اورعراق و افغانستان کے بلادکار کی دنیا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں انسانیت جنگوں، قحطوں اور دیگر ابتلاؤں کے ساتھ ساتھ انتہائی فحش قسم کے دولت اور طمطراق کے نظاروں سے بدحال ہے۔نظام کی بیماری ہر سطح پر ظاہر ہوتی ہے۔ آج پانچ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ’ہے وین‘ آج بھی کھڑکھڑاتی لڑھکتی اپنے بھاری پہیوں تلے عورتوں اور مردوں کو کچلتی رواں دواں ہے۔ سرمایہ دارانہ مغائرت ]Alienation[ اور اشیا کا استصنام ]Commodity Fetishism[ ہماری نفسیات کا ایک ایسا حصہ بن چکا ہے جس سے کہ ہم آگاہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے باطن کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ان تعصبات کو ہماری شعوری سطح تک لے کر آنے کے لیے بوش کے قد کاٹھ کا ایک فنکار درکار ہے۔تاریخ کے کسی بھی دور میں روپے پیسے کی حکمرانی اس حد تک نہیں گزری جتنی کہ ہمارے اس دور میں ہے۔ انسانوں کو خرید و فروخت کی اشیا کے حد تک گرا دیا گیا ہے اور یہاں بے جان چیزیں انسانوں کی توصیفات پا چکی ہیں۔ اس عمل میں انسانیت ذلیل، بے مایہ اور نابود ہو کے رہ گئی ہے۔ بوش کی تصاویر میں نمودار ہونے والے لالچ اور حِرَص سے مسخ شدہ بے احساس اور غیرانسانی چہرے آج بھی سٹاک ایکسچینج کے مراکز میں سودے بازیاں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، یہ دیوہیکل جوئے کے اڈے جہاں کروڑوں زندگیوں کا فیصلہ منڈی کی تشنج زدہ حرکات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔بوش کا ڈراؤنے خواب جیسا تصور ہمارے آج کے حالات سے بہت زیادہ مختلف نہیں، سوائے اس کے کہ اس کی پینٹنگز کی جگہ اب ہم ہوبہو اسی جیسے ہولناک نظارے اپنے ٹیلی وژن کی سکرینوں پر ہر روز رات کو دیکھتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارے آج کے آرٹ میں اس بات کی کہیں جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ چالیس لاکھ مرد، عورتیں اور بچے کانگو کی خانہ جنگی میں ذبح کیے جا چکے ہیں، اور ہمارے برطانیہ کے بہترین مصور ابھی تک ایک”بے ترتیب بستر“ ]The unmade bed[ بنا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ لوگ ہمیشہ پیچھے کی جانب مُڑ کر دیکھتے ہوئے حسرت سے ماضی کے عظیم آرٹ کی تحسین و تعریف کرتے ہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ آرٹ کے پاس اب کہنے کو کچھ بامعنی بچا ہی نہیں۔ پابلو پکاسو نے ہسپانوی خانہ جنگی کے ردِ عمل میں اپنا شاہ کار گیرنیکا تخلیق کیا۔ گویا نے اپنے عہد پر چھائے خوف و ہراس پر اپنے تبصرے اور اپنی رائے کے اظہار کے لیے ’جنگ کی تباہ کاریاں‘ تخلیق کیا۔ لیکن آج تو شارکوں کو بھی بطور آرٹ ہمارے سامنے مردہ اور حنوط شدہ حالت میں پیش کرنا پڑتا ہے۔یہ خود آرٹ ہی ہے جس کو حنوط کر کے شیشے کے خانوں میں سٹیریلائز کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ صدیوں بعد ایسا وقت آیا ہے جب آرٹ کے پاس ہماری اس دنیا کے بارے میں کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ حقیقت اور زندگی سے پرے مٹھی بھر منافع خوروں اور (بزعمِ خود) جمالیات شناسوں کی ایک ٹولی کی زرخرید جاگیر بن چکا ہے۔ اگر آج آرٹ حقیقی زندگی اور انسانوں کے مسائل سے لاتعلق نظر آتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ لوگ بھی آرٹ سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ہمارے دور کو اس بات کی ضرورت ہے کہ یہاں ایک اس دور کا ہائرونوموس بوش پیدا ہو جواس کو اس کا وہ والا چہرہ دکھائے جو کہ اس کا حقیقت میں ہے۔ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ ہر وقت ایسے فنکار موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز نہیں سنی جاتی۔ ان کے کام کو مال بنانے والی چکا چوند میں دبا دیا جاتا ہے جیسے اس نے باقی کے تمام سماج کو دبا رکھا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر آرٹ کی حقیقی آواز، ایک سچی اور جرات آمیز آواز خود کو اس قابل بنائے گی کہ اس کو سنا جائے اور پھر تمام انسانیت اس سے فیض پائے گی۔(لندن 23 دسمبر 2010ء)نوٹ: بریکٹوں میں الفاظ مترجم کی جانب سے ہیں، یا پھر اصطلاحات کا انگریزی متبادل دیا گیا ہے۔